جو بھی ہے حسب حال کھینچیں گے

جو بھی ہے حسب حال کھینچیں گے
اس کا نقشہ کمال کھینچیں گے


چٹکی کاٹے گی وہ شرارت سے
اور ہم اس کے بال کھینچیں گے


تجھ کو مجھ سے ملانے والے لوگ
دونوں جانب سے مال کھینچیں گے


یار لمحوں میں سامنے ہوگا
اس طرح ماہ و سال کھینچیں گے


بھرنے والا ہے یہ محبت سے
وقت پر اپنا جال کھینچیں گے


کوئی سگریٹ مزا نہ دے گا تو پھر
کیپسٹن پال مال کھینچیں گے


دینے ہوں گے جواب آخر کار
تجھ کو میرے سوال کھینچیں گے


زخم غربت کے سب رقم کر کے
کرب قحط‌ الرجال کھینچیں گے


آخر آنا پڑے گا میرے لیے
تجھ کو میرے خیال کھینچیں گے


گر یہ ممکن ہوا تو اپنی طرف
ایک دو خوش خصال کھینچیں گے


اتنے بگڑے ہیں ڈر نہیں باقی
کیا بڑے اپنے گال کھینچیں گے


میری غربت ملے گی ورثے میں
اس کو میرے عیال کھینچیں گے


توڑ دیں ڈور ہجر کی عابدؔ
کب تلک یہ وبال کھینچیں گے