وفا کر رہا ہوں جفا چاہتا ہوں

وفا کر رہا ہوں جفا چاہتا ہوں
خطا کر رہا ہوں سزا چاہتا ہوں


محبت کا یہ بھی کوئی مرحلہ ہے
کہ میں نالۂ نارسا چاہتا ہوں


نگاہوں کی عفت دلوں کی طہارت
میں سر سے قدم تک حیا چاہتا ہوں


تردد توہم کی ظلمت مٹا کر
میں علم و یقیں کی ضیا چاہتا ہوں


میں اخلاق و کردار و روحانیت میں
تنزل نہیں ارتقا چاہتا ہوں


خدا کی شریعت ہو نافذ زمیں پر
میں انسانیت کی بقا چاہتا ہوں


ہے جنت تو تیری رضا کی علامت
الٰہی میں تیری رضا چاہتا ہوں


عروجؔ ان کا پیغام پہنچا تو مجھ تک
مگر میں کچھ اس سے سوا چاہتا ہوں