وعدہ بھی اس نے سوچ کے کرنے نہیں دیا
وعدہ بھی اس نے سوچ کے کرنے نہیں دیا
پھر اس کے بعد مجھ کو مکرنے نہیں دیا
منزل تمام عمر مرے سامنے رہی
اک راستے نے مجھ کو گزرنے نہیں دیا
بے خوف کر دیا ہمیں تعویذ عشق نے
رسوائی کی بلاؤں سے ڈرنے نہیں دیا
ایسا عبور تھا کسی پتھر کو ٹھیس پر
آئنہ توڑ کر بھی بکھرنے نہیں دیا
جس سرزمیں کے حسن پہ نازاں رہے سبھی
اس سرزمیں کا حسن سنورنے نہیں دیا