اترا جو التفات کا دریا نہ تھا کبھی

اترا جو التفات کا دریا نہ تھا کبھی
دل اس قدر بھی ہجر کا مارا نہ تھا کبھی


سرمایۂ حیات تھے فردا کے خواب سو
لکھا بساط جاں پہ خسارا نہ تھا کبھی


بکھرا وہ خاک ہو کے مری رہ گزار میں
جو شخص آ کے خواب میں ملتا نہ تھا کبھی


تنہائی خوف یہ شب دیجور یہ گھٹن
گزرے گی ایسے قبر میں سوچا نہ تھا کبھی


اک آن میں یہ پیکر خاکی بکھر گیا
یہ سانحہ تو روح پہ گزرا نہ تھا کبھی


مستور تھا حجاب تقدس میں سوز عشق
آوازۂ خرام تمنا نہ تھا کبھی


ناسور بن کے روح کو گھائل کیے گیا
جو اشک چشم نم نے گرایا نہ تھا کبھی


تو یہ نہ جستجو ہے نہ ذوق جنون عشق
ویران ایسا شہر تمنا نہ تھا کبھی


انجمؔ یہ شب گزیدہ سحر کیوں نصیب میں
میں نے چراغ شوق بجھایا نہ تھا کبھی