میں تجھ پر منکشف ہو جاؤں یہ مجھ پر گراں ہے
میں تجھ پر منکشف ہو جاؤں یہ مجھ پر گراں ہے
خسارہ سا خسارہ تا بہ امکاں سب زیاں ہے
یہ چشم نم کی خونابہ فشانی تھم رہے تو
کھلے اشکوں کی طغیانی کا سر چشمہ کہاں ہے
چراغ ایسے تہ فرش زمیں رکھے گئے تھے
فلک کی مانگ میں اک جھلملاتی کہکشاں ہے
تری آنکھوں سے لے کر ہے شکم تک بھوک رقصاں
تو پھر نان جویں کا دائرہ ہی کل جہاں ہے
ہوئی اب رفتنی تیری خلش تو کیا یہ سمجھوں
کہ کچھ باقی نہیں اب تیرے میرے درمیاں ہے
کیا انکار جب قید قفس سے تب کھلا یہ
پر پرواز کی حد تو کراں تا بہ کراں ہے
تہ دام اسیری بھی رہائی کی تمنا
مری سہمی ہوئی آنکھوں میں اب تک پر فشاں ہے
کہاں کا عشوہ و غمزہ و نازش آہ انجمؔ
کہ میرا مہرباں مجھ پر ابھی نا مہرباں ہے