اسی نے آدم کے نقش پا کو ازل کیا تھا بھرم رکھا تھا
اسی نے آدم کے نقش پا کو ازل کیا تھا بھرم رکھا تھا
زمیں پہ جلوہ فگن نہ ہو کر بھی جس نے پہلا قدم رکھا تھا
ہم ایک ترتیب سے تمہاری اداس نظموں پہ رو چکے ہیں
کہ آنسوؤں اور خون کے بیچ ڈیڑھ سسکی کا سم رکھا تھا
ضعیف وقتوں میں اپنے کنبے کی ذمہ داری اٹھائی ہم نے
تمہارے ابو نے منہ دکھائی میں اس ہتھیلی پہ غم رکھا تھا
انہی گلوں سے اب آٹھویں سر کی میٹھی آواز آ رہی ہے
جنہوں نے ہجراں کی رات لرزش کے خاص عنصر کو کم رکھا تھا
اسے بتانا کہ اپنے دریاؤں کی حفاظت کے کام آئے
وہ پیڑ کشتی بنے ہوئے ہیں جنہوں نے صحرا میں نم رکھا تھا