اسے کیوں سحر سے نشاط ہو اسے کیا ملال ہو شام سے

اسے کیوں سحر سے نشاط ہو اسے کیا ملال ہو شام سے
جسے عشق ہے ترے ذکر سے جسے انس ہے ترے نام سے


وہ تمہارے طور و طریق تھے کہ ہزار رنگ بدل لئے
یہ ہمارے دل کا شعور ہے نہ ہٹے ہم اپنے مقام سے


مری آرزو کے چراغ پر کوئی تبصرہ بھی کرے تو کیا
کبھی جل اٹھا سر شام سے کبھی بجھ گیا سر شام سے


جو حیات عشق سنور گئی تو حیات حسن نکھر گئی
کبھی تیرے حسن خرام سے کبھی میرے سوز دوام سے


جو عزیز وارثیؔ تھا کبھی وہ عزیز وارثیؔ اب نہیں
نہ جنون عشق بتاں ہے اب نہ غرض ہے بادہ و جام سے