کیسے کیسے راز چھپانے لگتی ہیں
کیسے کیسے راز چھپانے لگتی ہیں
آنکھیں کیسے آنکھ چرانے لگتی ہیں
خاموشی سے جب بھی ہم دو چار ہوئے
آوازیں آواز لگانے لگتی ہیں
عشق کا دریا ایسا دریا ہے جس میں
امیدیں دن رات ٹھکانے لگتی ہیں
جنگل تو جنگل تھے اب تو شہروں میں
کیا کیا چیزیں آنکھ دکھانے لگتی ہیں
مجھ کو باہر جاتے دیکھ کے زنداں سے
زنجیریں طوفان اٹھانے لگتی ہیں