کوئی بھی رسم ہو کچھ ہو بہانا ہوتا تھا
کوئی بھی رسم ہو کچھ ہو بہانا ہوتا تھا
نہ جانے کیا تھا کہ ملنا ملانا ہوتا تھا
کسی سے ملتے اگر دل سے ہو کے ملتے تھے
عجیب لوگ تھے کیسا زمانہ ہوتا تھا
وہ لڑ جھگڑ کے بھی اک دوسرے پہ مرتے تھے
یہ سب تو تھا ہی مگر آنا جانا ہوتا تھا
کوئی بھی توڑ نہیں عہد یاد ماضی کا
ہزار غم تھے مگر مسکرانا ہوتا تھا
یہ تربیت تھی گھروں میں ہر ایک بیٹی کو
کسی بھی حال میں ہو گھر بچانا ہوتا تھا
ورق ورق تھے کتابوں کے معتبر اتنے
ہر ایک لفظ کو دل میں بسانا ہوتا تھا
اگر تھا عشق تو اس میں بھی ایسی شدت تھی
بھنور میں ایسے ہی بس کود جانا ہوتا تھا