اس نگاہ ناز نے یوں رات بھر تجسیم کی

اس نگاہ ناز نے یوں رات بھر تجسیم کی
سب چراغوں میں برابر روشنی تقسیم کی


رات پیچھے پڑ گئی تھی خوف کے سائے لیے
خواب سے آگے نکل کر وقت میں ترمیم کی


آئنہ ہو جائے گا یہ دشت مجھ پر ایک دن
گرہیں کھلتی جا رہی ہیں احسن تقویم کی


دونوں ہی آ کر الف کی روشنی میں ضم ہوئیں
اک تجلی لام کی اور اک تجلی میم کی


شہد کا بھی ذکر ہو سکتا تھا ہونے کو مگر
اس کے لہجے کے مطابق بات چھیڑی نیم کی


میں ہی تھا اپنے مقابل خواہشوں کی ڈور میں
ہارنا مشکل لگا سو جیت ہی تسلیم کی


دوست لیکن تجھ کو یہ عزت نہ راس آئی کبھی
میں نے اپنے آپ سے بڑھ کر تری تکریم کی


شام ہوتے ہی چراغوں کو سجایا طاق میں
سارا دن سو کر گزارا رات کی تعظیم کی


عمر بھر سورج کے آگے ہاتھ پھیلائے مگر
اک ستارے نے مجھے یہ روشنی تعلیم کی


کھینچ کر افلاک پہ اک سرمئی روشن لکیر
چاند نے صورت بدل ڈالی ہماری تھیم کی


میں نے زیبؔ اس کو محبت میں کہا تھا مجھ سے مل
اس نے میری بات کی کتنی غلط تفہیم کی