صبح تلک افلاک پہ اک کیفیت طاری کرتا ہوں
صبح تلک افلاک پہ اک کیفیت طاری کرتا ہوں
چاند کو اپنی نظم سنا کر شب بے داری کرتا ہوں
چوکیدار ہوں لیکن میرا لمبا چوڑا کام نہیں
ایک ہی پھول ہے باغ میں جس کی پہرے داری کرتا ہوں
گھر سے نکل آتا ہوں اکثر صبح کے تڑکے وحشت میں
جھیل میں پتھر پھینک کے دن بھر وقت گزاری کرتا ہوں
رات گزر جاتی ہے میری ہجر کا دکھ نمٹانے میں
زخم شماری ہو جائے تو نجم شماری کرتا ہوں
خون سے کھینچ کے اشک کو اپنے لاتا ہوں ان آنکھوں تک
کتنی مشکل سے میں خود پر رقت طاری کرتا ہوں
تم کو سمجھ میں آ جائے تو سمجھو شعر مکمل ہے
ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں بس بات تمہاری کرتا ہوں
لفظوں کو ترتیب میں رکھ کر پڑھتا ہوں ہر محفل میں
لہجے کی امداد سے میں آواز کو بھاری کرتا ہوں
روز براجنا ہوتا ہے اک نیا سنگھاسن مجھ کو زیبؔ
روز کے روز اسی دھارا کے سکے جاری کرتا ہوں