نہیں یہ جیت نہیں ہے تو اس کو مات سمجھ
نہیں یہ جیت نہیں ہے تو اس کو مات سمجھ
کہ تیرے ساتھ یہاں ہو گیا ہے ہاتھ سمجھ
میں اپنے پیادے سے تیرا وزیر ماروں گا
بہ غور دیکھ مری چال واردات سمجھ
کسی کسی پہ ہی کھلتے ہیں پیچ و خم میرے
میں اتنا سہل نہیں میری مشکلات سمجھ
محبت اتنی رعایت نہیں دیا کرتی
اگر وہ ہنس کے بھی دیکھے تو التفات سمجھ
مری کہانی ترے چہرے پر لکھی ہوئی ہے
میں آئنہ ہوں مجھے دیکھ اور بات سمجھ
دفینہ جان ان آنکھوں کو ہجر میں اس کے
جو ان میں اشک ہیں پنہاں نوادرات سمجھ
گزر چکا ہے اگر تو سن بلوغت سے
تو اپنے جسم کو اب واجب الزکوۃ سمجھ
نظر کو ایک ہی نقطے پہ مرتکز کر لے
دل و نگاہ کی الجھن کو ایک ساتھ سمجھ
دھڑک رہا ہے یہ کس شخص کی محبت میں
سمجھ میں آئیں تو دل کے معاملات سمجھ
یہ چلتے پھرتے ہوئے بت ہیں آدمی تو نہیں
زمیں پہ چار سو برپا ہے سومنات سمجھ
اک ایک لفظ علامت ہے حسن فطرت کی
یہ شاعری ہے سو اس کی جمالیات سمجھ
رکے ہوئے بھی سفر کر رہی ہے خاک مری
گزر رہی ہے گزارے بنا حیات سمجھ
کھلی ہے جب سے تری کینہ پروری مجھ پر
تو آ گئی ہے مجھے ایک ایک بات سمجھ
تجھے یہ عشق کی جانب دھکیل سکتا ہے
سمجھ رہا ہے تو دل کو بھی دوست گھات سمجھ
جو مجھ پہ بیتا ہے میں نے وہی لکھا ہے زیبؔ
تو میرے شعروں کو بس میرے تجربات سمجھ