نہتے آدمی پہ بڑھ کے خنجر تان لیتی ہے

نہتے آدمی پہ بڑھ کے خنجر تان لیتی ہے
محبت میں نہ پڑ جانا محبت جان لیتی ہے


اسے خاموش دیکھوں تو سنائی کچھ نہیں دیتا
دکھائی کچھ نہیں دیتا نظر جب کان لیتی ہے


اداسی آشنا ہے اس قدر آہٹ سے میری اب
جہاں سے بھی گزرتا ہوں مجھے پہچان لیتی ہے


خوشی تو دے ہی دیتی ہے تری دنیا مجھے لا کر
مگر بدلے میں وہ اس کے مرا ایمان لیتی ہے


بس اک لمحہ لگاتی ہے خوشی آ کر گزرنے میں
اداسی آئے تو صدیوں کی مٹی چھان لیتی ہے


برابر بانٹ دیتی ہے وہ سانسیں خاک زادوں میں
نہ جانے زندگی کس کی دکاں سے بھان لیتی ہے


اسی کے ساتھ چلتی ہے یہ منزل پر پہنچنے تک
یہ راہ غم جسے اپنا مسافر جان لیتی ہے


وہ ہر مچھلی جو مچھلی گھر کی پیداوار ہو صاحب
وہ مچھلی گھر کو ہی اپنا سمندر مان لیتی ہے


ہم اس کے ہاتھ پہ رکھ دیں زمین و آسماں لا کر
مگر وہ ہم فقیروں کا کہاں احسان لیتی ہے


سر مقتل بکھر جاتے ہیں اس میں ڈوبنے والے
محبت ہر قدم پر خون کا تاوان لیتی ہے


اگر بجھنے سے بچنا ہے تو لو سے لو جلاؤ زیبؔ
ہوا جلتے چراغوں سے یہی پیمان لیتی ہے