تھی قہر سادگی بھی سنورنے سے پیشتر

تھی قہر سادگی بھی سنورنے سے پیشتر
شہ رگ پہ نیشتر تھا اترنے سے پیشتر


پھرتا ہوں در بدر میں مگر مثل بوئے گل
میرا بھی تھا مقام بکھرنے سے پیشتر


بے اشک کیا ہوا کہ میں بے عکس ہو گیا
آئینہ تھا یہ پانی اترنے سے پیشتر


ہجرت سے پہلے ہجر کے تھے وسوسے مجھے
ہر لمحہ حادثہ تھا گزرنے سے پیشتر


اس نزع انتظار کو اک عمر ہو چلی
کیسی ہمیشگی ہے یہ مرنے سے پیشتر