درد اٹھ اٹھ کے یہ کہتا ہے رگ جاں کے قریب
درد اٹھ اٹھ کے یہ کہتا ہے رگ جاں کے قریب
ابھی زنداں میں ہوں لیکن در زنداں کے قریب
آگ جنگل بھری نیندوں میں لگانے والے
تم بھی آنا نہ مرے خواب پریشاں کے قریب
خشک آنکھوں میں ترے خواب بساؤں کیسے
کوئی چشمہ بھی ضروری ہے بیاباں کے قریب
سردیوں کی یہ خنک دھوپ بھی پگھلانے لگی
جیسے بیٹھا ہوں اسی شعلہ بداماں کے قریب
آنکھ کھلتے ہی نہ وہ تھا نہ چراغاں نہ خمار
رات گزری تھی کسی چاند سے مہماں کے قریب
ڈوب جاتا ہوں میں ہر صبح افق میں دل کے
شہر جاناں سے پرے شہر خموشاں کے قریب