ماتھے پہ پڑی زلف گرہ گیر ہلا دی

ماتھے پہ پڑی زلف گرہ گیر ہلا دی
کیوں تم نے دل خفتہ کی زنجیر ہلا دی


ویسے تو مرے عشق کا ہر نقش حسیں تھا
جب درد نے کھینچی تو یہ تصویر ہلا دی


خط بھیج دیا کاٹ کے پیمان ملاقات
یہ کون ہے جس نے تری تحریر ہلا دی


یوں ہی نہ سمجھ اہل محبت کے جنوں کو
کم بخت نے جب چاہا ہے تقدیر ہلا دی


وہ زلزلہ گو روز ہلا دیتا تھا دل کو
اس بار مگر ساری ہی تعمیر ہلا دی