اس نظر سے جو رابطہ ہو جائے

اس نظر سے جو رابطہ ہو جائے
کچھ نہ ہونا بھی حادثہ ہو جائے


وہ کریں التجا میں ترک کروں
مجھ کو اک ایسا تجربہ ہو جائے


یوں نہ ہو پھر ہو تیرا قرب نصیب
یوں نہ ہو پھر یہ سانحہ ہو جائے


نام لیتے ہی دل دھڑکتا ہے
سامنے آئے وہ تو کیا ہو جائے


کام کتنا ہے اس کی یادوں کا
آج پھر سے نہ رتجگا ہو جائے


جب اذیت ہیں قربتیں شہنازؔ
پھر تو بہتر ہے فاصلہ ہو جائے