کبھی اک دم کبھی چپکے سے آئے
کبھی اک دم کبھی چپکے سے آئے
تمہاری یاد بھی وقفے سے آئے
تھا باہر اک الگ ہی شور برپا
ہم اندر چور دروازے سے آئے
بدل کہ رکھ دیا تعمیر نو نے
سو تیرے در پہ اندازے سے آئے
نئی منزل کی لے کر آرزو ہم
قدیمی معتبر رستے سے آئے
ملی ہر شور میں پنہاں خموشی
پلٹ کر ہم جو ویرانے سے آئے