اب دل کو انتظار ترے فیصلے کا ہے

اب دل کو انتظار ترے فیصلے کا ہے
اور تجھ میں عیب دیر تلک سوچنے کا ہے


کوئی نہیں سنے گا برائی شراب کی
ہر شخص اس دیار میں عادی نشے کا ہے


اب سنگ باریوں کا عمل سرد پڑ گیا
اب اس طرف بھی رنج مرے ٹوٹنے کا ہے


یہ سارے لوگ خود تو ہیں جیسے کوئی کمان
جو تیر چل رہا ہے کسی دوسرے کا ہے


چہرے کا خول صاف نظر آ گیا عقیلؔ
پھر بھی یہ شور ہے کہ قصور آئینے کا ہے