ہر ایک کی ہر پسند ٹھہرے ہر ایک کا انتخاب نکلے

ہر ایک کی ہر پسند ٹھہرے ہر ایک کا انتخاب نکلے
ہمی کو اچھا بتایا سب نے ہمی زیادہ خراب نکلے


سوال تھا اس طرف انا کا وقار کا مسئلہ ادھر تھا
نہ در پہ خانہ خراب پہنچے نہ گھر سے عالی جناب نکلے


کئی اداؤں نے گدگدایا کئی نگاہوں نے دستکیں دیں
یہ واقعے دل نشیں بہت تھے مگر حقیقت میں خواب نکلے


سنی اندھیروں کی سگبگاہٹ تو شام یادوں کی کہکشاں سے
چھپے ہوئے ماہتاب نکلے بجھے ہوئے آفتاب نکلے


میں مطمئن ہوں کہ لب کشائی سے میں نے حد ادب نہ توڑی
وہ اس پہ خوش ہے کہ آج اس کے سوال سب لا جواب نکلے