اس کی یادوں پہ صدقے ہر بات بکھرتی جاتی ہے
اس کی یادوں پہ صدقے ہر بات بکھرتی جاتی ہے
ذکر کئے جاتا ہوں اس کا رات گزرتی جاتی ہے
واقف ہے ہر پھول چمن کا اس کے بدن کی خوشبو سے
چھو کر اس کو باد صبا بھی آہیں بھرتی جاتی ہے
کھو جاتے ہیں چاند ستارے اس کی حسن پرستی میں
جیوں جیوں گہری ہوتی ہے شب اور نکھرتی جاتی ہے
خواب ادھورے ماتم کرتے ہیں آنکھوں میں پوری شب
دل میں یادوں کی کوئی شمشیر اترتی جاتی ہے
شہر گم گشتہ کی سڑکوں پر کوئی محفوظ نہیں
خاموشی بھی اب اس جانب ڈرتی ڈرتی جاتی ہے
بے کس لمحے آشفتہ دل اور یہ رنج و غم انکتؔ
جبر مشیت ہجر کے معانی ظاہر کرتی جاتی ہے