اس کے منہ کا کڑوا بول بھی کیسا تھا
اس کے منہ کا کڑوا بول بھی کیسا تھا
دودھ میں جیسے شہد ملا ہو لگتا تھا
کھلی ہوا میں اڑتے اڑتے مر جانا
قفس میں رہ کر جینے سے تو اچھا تھا
شادی ہو جانے پر بیٹا بھول گیا
بیوہ ماں نے کیسے اس کو پالا تھا
آج میں اس کا ہاتھ پکڑ کر چلتا ہوں
کل جو میری انگلی تھامے چلتا تھا
اب تو اس میں یادوں کا ہے شور بہت
من کا آنگن پہلے کتنا سونا تھا
سوچ رہا تھا آپ مرے گھر میں کیسے
آنکھ کھلی تو سمجھ میں آیا سپنا تھا
دن بھر ہنستا پھرتا تھا جو سڑکوں پر
وہ پاگل تنہائی میں اکثر روتا تھا
سر کو اونچا کر کے جو چلتا تھا رفیقؔ
اصل میں مجھ سے قد میں ذرا وہ چھوٹا تھا