پھول اخلاص کے ہونٹوں پہ سجانے والا

پھول اخلاص کے ہونٹوں پہ سجانے والا
میں ہوں دشمن کو بھی سینے سے لگانے والا


جا کے پردیس مرے گھر کا پتا بھول گیا
اپنا بچپن مرے آنگن میں بتانے والا


اس کی یادوں کو کلیجے سے لگائے رکھیے
اب نہ آئے گا کبھی لوٹ کے جانے والا


میرے دشمن تجھے معلوم نہیں ہے شاید
مارنے والے سے بڑھ کر ہے بچانے والا


کیسے کرتا میں شکایت بھی کسی کی یارو
میرا اپنا ہی تھا دل میرا دکھانے والا


ایسے بچھڑا کہ خیالوں میں بھی آیا نہ رفیقؔ
کتنا خوددار تھا وہ روٹھ کے جانے والا