کوئی دیکھے تو ذرا کیسی سزا دیتا ہے
کوئی دیکھے تو ذرا کیسی سزا دیتا ہے
میرا دشمن مجھے جینے کی دعا دیتا ہے
حاکم وقت بھی حالات سے عاجز آ کر
وقت کے سامنے سر اپنا جھکا دیتا ہے
کیا ہوا تو نے جو غربت میں چھڑایا دامن
ایسے حالات میں ہر کوئی دغا دیتا ہے
لطف آتا نہیں ہو کر بھی شکم سیر تمہیں
ہم غریبوں کو تو فاقہ بھی مزہ دیتا ہے
دور آکاش میں اڑتا ہوا سوکھا پتا
آنے والے کسی طوفاں کا پتا دیتا ہے
ہاتھ پھیلاؤں کسی غیر کے آگے کیوں کر
مجھ کو ہر چیز بنا مانگے خدا دیتا ہے
جس کی آواز کو سن کر میں تڑپ جاتا ہوں
میرے اندر سے مجھے کون صدا دیتا ہے
کوئی منزل پہ نہیں چھوڑتا لے جا کے رفیقؔ
ہر کوئی دور سے بس راہ دکھا دیتا ہے