اس کا درد میرا مرہم

نہ تیرا کوئی بسیرا
نہ میرا کوئی ٹھکانا
چل مل کے ڈھونڈتے ہیں
کوئی نیا آشیانا


ایک ہی کشتی کے
ہم دونوں ہیں مسافر
جو تیرا ہے فسانہ
وہی میرا بھی افسانہ


سنتے ہیں بانٹنے سے
ہوتے ہیں کچھ تو غم کم
وہ مجھ سے سے کہہ رہا ہے
ذرا تم بھی آزمانا


حیرت یہ ہو رہی ہے
کیوں مل رہی ہے راحت
جب اس کے بھی زخموں کو
رستے ہوئے میں نے جانا