زبان و بیان

اردو کا چرخہ اور چرخے کی آواز

اردو زبان

اُردو کا رونا رونے میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر غازی علم الدین اور جناب رضا علی عابدی سمیت آج کل بہت سے لوگ مصروف ہیں۔ ہمیں اور برادر خورشید ندیم کو بھی انھیں اہلِ گریہ میں ڈال لیجیے۔ مگر رونا کاہے کا؟ اُردو کی فتوحات تو بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ اُردو کا جادُو (کسی بھوت کی طرح) لوگوں کے سر چڑھ چکا ہے اور وہیں چڑھے چڑھے (اُردو) بول رہا ہے۔

مزید پڑھیے

خدارا اردو پر رحم کیجیے

اردو زبان

یہی اردو کا وصف ہے جس کی وجہ سے یہ زبان جنوبی ایشیا کے علاوہ بھی پوری دنیا میں بولی، سمجھی اور لکھی جا رہی ہے۔ اردو کی اس صفت کا مقابلہ اردو، فارسی، ترکی یا کوئی اور زبان نہیں کر سکتی۔ ان زبانوں میں اجنبی الفاظ کی بھرمار ہے۔ فارسی میں سٹیشنری کو لوازم التحریر کہتے ہیں یا نوشت افزار! اردو نے سٹیشنری کا لفظ جذب کر لیا۔

مزید پڑھیے

یہ تہمت ہے کیا چیز ، بہتان کیا ہے؟؟؟ کیسے کیسے نام ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں

اردو زبان

تہمت کی اصل ’وہم‘ ہے۔’تَوَہُّم‘ کا مطلب ہے وہم کرنا یا گمان میں مبتلا ہونا۔ تہمت بھی دراصل بدگمانی اور بدظنی ہے۔ ہمارے شعرائے کرام بہتان کم باندھتے ہیں، تہمت زیادہ لگاتے ہیں۔ بہتان باندھنے کا الزام بھی دوسروں کے سرجاتا ہے۔ داغؔ کا شعر ہے: میں اور دشمنوں سے شکوہ کروں تمھارا؟ بہتان جوڑتے ہیں، بہتان باندھتے ہیں

مزید پڑھیے

مجھے نام نہ آئے رکھنا

، صاحبو! نام رکھنا بھی ایک ہنر ہے۔ انورؔمسعود کہتے ہیں: کوئی تخلیق بھی تکمیل نہ پائے میری۔۔۔۔۔۔۔۔ نظم لکھ لوں تو مجھے نام نہ آئے رکھنا

مزید پڑھیے

نثر کا باپ!!! ارے باپ رے باپ

اردو

کُنیت مشہور ہوجانے کی وجہ سے اصل نام بھول جانے کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ مثلاً عبدالعزیٰ کا چہرہ آگ کے شعلوں کی طرح دہکتا ہوا سُرخ تھا۔ لوگ اس کا بھی اصل نام بھول گئے اور ابولہب (شعلے جیسے چہرے والا یا شعلہ رُو) کہہ کر پکارتے پھرے۔ اسی طرح عمرو بن ہشام، حق کو جاننے اور پہچاننے کے باوجود، اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے جاہلیت کے دھرم پر اَڑا رہا۔ اِس وجہ سے اُس کی کنیت ابوجہل (صاحبِ جہالت) اُس کا عُرف بن گئی اور یہی اُس کی شناخت ٹھہری۔

مزید پڑھیے

بادشاہ ، وزیر اور دس کتے

king

دس دن مکمل ہوئے ۔بادشاہ نے اپنے پیادوں سے وزیر کو کتوں میں پھنکوایا لیکن وہاں کھڑا ہر شخص اس منظر کو دیکھ کر حیران ہوا کہ آج تک نجانے کتنے ہی وزراء ان کتوں کے نوچنے سے اپنی جان گنوا بیٹھے لیکن آج یہی کتے اس وزیر کے پیروں کو چاٹ رہے ہیں۔ بادشاہ یہ سب دیکھ کر حیران ہوا اور پوچھا، " کیا ہوا آج ان کتوں کو؟؟؟"

مزید پڑھیے

اردو شاعری کی طُرفہ بدقسمتی

literature

اردو ادب اور شاعری ایک قحط الرجال کے عہد اور سانحہ سے گزر رہا ہے، جس کی بظاہر دو بڑی وجوہات ہماری سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک پاپولر لٹریچر کے نام پر لغویات کا عام ہونا اور دوسرا اردو ادب میں سچے نقادوں(تنقید نگار) کا قحط۔ فی زمانہ اردو شاعری پر اماوس کی جو رات چھائی ہوئی ہے، اسکی کوئی اور وجہ سوائے تنقید نگاری کے فقدان کے ہمیں سمجھ نہیں آتی۔

مزید پڑھیے

’’سرے تسلیمے خم‘‘ سے’’ گُلِ میخِ پائے تختِ محمدؐ‘‘ تک

اصلاح زبان

‘… ’سرے تسلیمے خم‘ کا خدا جانے کیا مطلب نکلے گا، مگر وہ مطلب نہیں نکلے گا جومولوی صاحب نکالنا چاہتے تھے۔ شاید ’’اپنا ’سرے تسلیمے خم‘ کرو‘‘ کا مطلب یہ نکل آئے کہ اٹھو اور اپنا سر ٹیڑھے پن کی نذرکردو۔ حاصل کلام یہ کہ یہاں تسلیم کو زیر نہیں لگایا جائے گا۔

مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4