زبان و بیان

تہذیب سیکھنا مقصود ہو تو اردو سیکھ لیجیے

اخلاق

مغرب کی بد تہذیبیوں میں سے ایک بدتمیزی اور ہمارے برقی ذرائع ابلاغ میں در آئی ہے۔ انگریزی زبان میں ’آپ، تم اور تُو‘ کا فرق تو ہے نہیں، You کی لاٹھی سے سب کو ہانکا جاتا ہے۔ وہاں القاب و آداب کے بغیر نام لے کرپکارنا بے تکلفی کا اظہارہے۔ اگر پیارسے پُکارنے کا نام معلوم ہو جائے تو کیا کہنے۔ معلوم نہ ہو تب بھی ایلزبتھ کو لزی اور جیکب کو جیکی پکارنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس عمل کی نقالی نے اردو زبان کی تہذیب، ادب آداب اور رکھ رکھاؤ کو متاثر کیا ہے۔

مزید پڑھیے

اردو زبان کیا بھولے ، اردو کے ہندسے ، گنتی اور اعداد بھول بیٹھے

گنتی سے بننے والے محاوروں کی گنتی کرنا آسان نہیں۔صرف عدد ’ایک‘ سے بننے والے چند محاوروں پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ ’ایک آنچ کی کسر رہ جانا‘یعنی ذرا سانقص یا کمی باقی رہ جانا۔’ ایک آنکھ سے دیکھنا‘یعنی سب کو یکساں سمجھنا، اپنے پرائے کا فرق نہ کرنا، انصاف پسند ہونا۔’ ایک آنکھ نہ بھانا‘ یعنی بالکل ہی پسند نہ آنا۔’ ایک انڈا وہ بھی گندا‘ یہ محاورہ بالعموم ایک ہی بیٹا اور وہ بھی نالائق ہونے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے، یا ایک ہی چیز میسر ہو اور وہ بھی ناکارہ۔’ ایک اور ایک گیارہ‘یا ’ ایک سے دو بھلے‘

مزید پڑھیے

اردو زبان کا حق ہے کہ اس کے تحفظ اور فروغ کو آگے آیا جائے

اردو

انگریزی الفاظ کا غلبہ شاید قبول کرلیا جاتا، مگر مسلمانانِ پاکستان اپنی زبان کو قرآن و حدیث سے قریب رکھنا چاہتے ہیں، کہ ہمارے بچے جب قرآنِ مجید کی تلاوت کریں یا کسی حدیثِ مبارکہ کے اصل الفاظ پڑھیں تو اجنبیت محسوس نہ کریں۔ سورۃ الفاتحہ کے تقریباً تمام الفاظ ہمارے اُردو روزمرہ کا حصہ ہیں۔

مزید پڑھیے

مزدور شاعر کی غزل: پرسشِ غم کا شکریہ

احسان دانش

عظیم مزدور شاعر ، نثر نگار ، وہ جس نے زندگی کے اتار چڑھاؤ کو اس رنگ میں دیکھا کہ یہ جہاں، یعنی جہانِ معلوم، اسے جہانِ دیگر ۔نظر آنے لگا ۔ یعنی وہ شخص ، جس نے جامعہ پنجاب کے ریگزاروں میں مزدوری کی ، بیل کی طرح کولہو چلائے ، دیواریں کھڑی کیں ، دیواروں پر اپنے ہنر کے نشاں ثبت کیے ،اس احسان دانش کی بعد میں اسی مادرِ علمی ، یونیورسٹی آف دی پنجاب میں بحیثیتِ پروفیسر تقرری بھی ۔ہوئی

مزید پڑھیے

اپنی زبان کو فخر سے گلے لگانے والے ہی آگے بڑھ پاتے ہیں

اردو

جو تیز رَو ہوتے ہیں، وہ پیش رَو ہوتے ہیں۔ ہم تو صرف پَیرو ہیں۔ پیروی کرنے میں طاق۔ نقّالی میں یکتا۔ ہر شعبے میں ’نقلی مال‘ بنانے کے ماہر۔ دنیا بھر میں ہمیں ’نقّال درجۂ اوّل‘ مانا جاتا ہے۔ جس شعبے میں بھی دیکھیے ہم فقط نقّالی ہی کررہے ہیں… تعلیمات میں، ابلاغیات میں اور طرزِ حیات میں۔ لیکن نقال کتنے ہی اچھے نقال کیوں نہ ہوجائیں، رہیں گے نقَّال کے نقَّال۔ ’نقل‘ کو کبھی ’اصل‘ کا مقام نہیں ملتا۔ سو ہمیں اپنا اصل مقام حاصل کرنے کے لیے اپنی اصلیت سے دست بردار نہیں ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیے

اپنی کم علی کو اردو زبان کی کم مائیگی پر متہم مت کیجیے

اردو

اُردو کا ذخیرۂ الفاظ اُن کے دامن میں سما نہیں سکا۔ سو، اپنی تنگ دامنی کو انھوں نے اُردو ہی کی تنگ دامانی قرار دے ڈالا۔ کہتے ہیں کہ معاصر علوم کی تعلیم اُردو میں دی ہی نہیں جا سکتی۔ دلیل یہ ہے کہ اُردوکے دامن میں اتنی وسعت نہیں کہ جدید علوم کا احاطہ کرپائے۔ صاحبو! یہ دعویٰ کرے تو وہ کرے جسے اُردو زبان پر عبور ہونے کا بھی دعویٰ ہو۔ ماں باپ یا ماموں سے سن کر اُردو بول لینے اور لکھ لینے کا مطلب یہ تو نہیں کہ اُردو پر عبور ہوگیا۔

مزید پڑھیے

اپنی زبان اور اردو زبان کو بگڑنے نہ دیجیے

اردو

قصہ مختصر یہ کہ اگر آپ اُردو میں صحافت کرنا چاہتے ہیں تو اُردو ہی کے الفاظ کو اُردو سے بے دخل کردینے پر کیوں تُل گئے ہیں؟ اُردو کے قارئین اور ناظرین کے سروں پر نامانوس انگریزی الفاظ کی بمباری کی مہم کیوں چلا رہے ہیں؟ ’بمباری‘ پر یاد آیا کہ جن انگریزی الفاظ کو اُردو نے اپنے مزاج کے مطابق ڈھال لیا ہے، یا جن انگریزی الفاظ کو جوں کا توں قبول کرلیا ہے مثلاً ریڈیو، ٹیلی فون، ٹیلی وژن اور جج وغیرہ اُن سے تعارُض نہیں۔ اسی طرح اسمائے معرفہ کا بھی ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ فیس بک کو ’کتاب چہرہ‘ اور ٹوئیٹر کو

مزید پڑھیے

اردو غزل کے مظاہر ، قواعد اور خصائص

اردو

یہاں میر کے اس شعر پر غور کیجئے ، " کچھ نہ دیکھا پھر بجز یک شعلۂ  پر پیچ و تاب ، شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا " ، پہلے مصرعے کا تقریباً نصف حصہ بجز یک شعلہ پر پیچ و تاب، دوسرے مصرعے کی سادگی اور روانی کی وجہ سے کھٹکتا ہی نہیں۔ میر سوز نے فارسی تراکیب سے اجتناب کیا، میر نے انھیں سلیقے سے برتا، آرزو نے فارسی تراکیب سے احتراز کیا۔ یگانہ نے حسب موقع ان سے کام لیا۔ یہی بات دونوں کی شاعری کا درجہ متعین کرنے میں معاون ہے۔

مزید پڑھیے

کیا اردو کو مشکل سے مشکل تر کرنا اس زبان کی خیر خواہی ہے؟

اردو

بچے بچے کو معلوم ہے کہ اردو کا خمیر آمیزش سے اٹھا ہے اور اس کے مزاج میں وسعت اور فراخ دلی ہے۔ انگریزی کے سینکڑوں الفاظ , گاؤں گاؤں قصبے قصبے میں سمجھے اور بولے جاتے ہیں۔ مگر اب اگر یارانِ ہوش مند، ان الفاظ کو ہٹا کر غیر مانوس اور نہ سمجھ آنے والے الفاظ سے اردو کی ''خدمت‘‘ کرنا چاہتے ہیں تو اس کارِ خیر میں ہم بھی اپنا حصہ ڈال کر ان یارانِ ہوش مند کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیے

میمن گھرانے ، اردو اور حسینہ معین صاحبہ

اردو

میمن اس کلچر سے حسینہ معین کے ڈراموں سے آشنا ہوئے، نہ صرف واقف ہوئے بلکہ خوشگوار طور پر  واقف ہوئے، اب تک وہ  اردو زبان  کو مزاحیہ فلموں کے ذریعے آداب کی زد میں ٹرین چھڑوا دینے یا فرش مخمل پر پاؤں چھلوانے والے پُر  نزاکت کلچر کی حامل  بیوقوفانہ زبان سے تعبیر کرتے تھے اور انکے نزدیک ایسا کلچر دلی اور لکھنؤ کے گمشدہ اوراق میں گم ہوچکا تھا، مگر حسینہ معین نے انہیں دکھایا کہ یہ کلچر گم نہیں ہوا بلکہ کراچی میں  ابھی بھی زندہ ہے اور پوری آب و تاب کے ساتھ، نئی جہت کے ساتھ موجود  ہے۔

مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4