میمن گھرانے :جہاں اردو میں بات کرنا ممنوع تھا

کراچی کا ماحول 1975 تک پہنچتے پہنچتے بہت ساری تبدیلیوں سے گزرنے لگا تھا، افراط زر کے سبب پیسے کی ریل پیل نے بہت ساری روایتوں کا خاتمہ کیا تو بہت ساری نئی روایتیں پروان چڑھنے لگیں، میمن برادری ان سے کہاں بچ سکتی تھی سو یہاں بھی نئی روایتوں نے ڈیرے ڈالنے شروع کئے، جن میں سب سے بڑی روایت میمن گھرانوں میں "اردو" کا داخلہ ہے۔

یہ روایت کیوں پڑی؟ میمن گھرانے اردو کی جانب کیوں مائل ہوئے؟ اس سوال کا جواب دینا اس لیے ضروری ہے کہ پرانی تو کیا نئی نسل بھی اس صورتحال پر چراغ پا ہے کہ انکے نزدیک ہم اپنی شناخت کھو رہے ہیں، اپنی زبان بہت میٹھی ہے اسے ہم کیوں ترک کریں مگر بولتے وہ اردو ہی ہیں۔

اردو سے میمن برادری کا اجتماعی طور پر پہلا رابطہ جوناگڑھ میں ہوا،  جوناگڑھ کی سرکاری اور رابطے کی زبان گجراتی تھی مگر اسے ہنود کی زبان قرار دیا جاتا تھا اور مسلمان کوشش کرکے اردو میں بات کرتے تھے جو "مسلمانی" کہلاتی تھی، وہ اردو بس نام کی اردو تھی ورنہ اسکے اکثر الفاظ گجراتی یا میمنی کے تھے، یہ گلابی اردو جوناگڑھ کی اردو کہلاتی ہے اور  کراچی میں آج بھی اولڈ سٹی ایریا، مہاجر کیمپ اور جہاں جہاں جوناگڑھ والے بستے ہیں خوب بولی جاتی ہے، ٹی وی ڈراموں میں میمنی کلچر دکھاتے ہوئے مذاقاً یہی زبان دکھائی جاتی ہے جو میمن عموماً نہیں بولتے مگر جوناگڑھ والوں سے مل کر ضرور بولتے ہیں اس لئے کہ اسکے بولنے کا بھی ایک لطف ہے، مگر جوناگڑھ میں بھی یہ زبان میمن گھر میں نہیں بولتے تھے گھر میں تو اپنی مادری زبان ہی میں گفتگو کرتے تھے، مگر کراچی میں اردو میمن گھرانوں کے اندر براجمان ہوگئی ہے تو اسکی وجہ کیا ہے ؟

زبان کے اعتبار سے میمنی کی بنیاد سندھی زبان ہے جس نے ایک عرصے تک گجراتی زبان کی مصاحبت سے جو رنگ اختیار کیا وہ میمنی زبان کی موجودہ صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔ میمنی زبان میں "آپ" اور "تو" ہے مگر " تم "نہیں،"  آپ " بہت ذیادہ ثقیل خیال کیا جاتا تھا اور بزرگوں یا پیروں کے لئے مروج تھا عمومی تعلقات اور گفتگو میں " تو تکار " ہی کا غلبہ تھا، اس کا اظہار آپ نے ہندوستانی چینلز کے گجراتی کلچر کے ڈراموں میں خوب دیکھا ہوگا ۔ عورت یا بیوی ہندو معاشرے میں لائق احترام نہیں اسکے اثرات کے سبب میمن گھرانوں میں بھی بیوی کو مخاطب کرنے کے لئے ایک  کرخت " تو " کا رواج تھا، باپ کی دیکھا دیکھی بچے بھی ماں کو "تو" ہی سے پکارتے تھے، بڑے بھائی اور بہنوں کے لئے بھی صورتحال مختلف نہ تھی، زمانہ طالبعلمی  میں دہلی اسکول میں ایک مرتبہ والدین کو بلایا گیا، ایک  اردو اسپیکنگ دوست نے سوال کیا، تمہارے ابا کس وقت آئیں گے ؟ میں نے جواب دیا ابا نہیں آئیں گے میرا بڑا بھائی آئیگا، اس نے کہا اچھا تو تمہارے بھائی آئیں گے، دیکھا آپ نے کلچر  اور زبان کا فرق ؟ یہ کلچر ظاہر ہے کتیانہ، نمبر ٹو یا میمن سیکنڈری اسکول میں نظر نہیں آسکتا تھا، میمن اس کلچر سے حسینہ معین کے ڈراموں سے آشنا ہوئے، نہ صرف واقف ہوئے بلکہ خوشگوار طور پر  واقف ہوئے، اب تک وہ  اردو زبان  کو مزاحیہ فلموں کے ذریعے آداب کی زد میں ٹرین چھڑوا دینے یا فرش مخمل پر پاؤں چھلوانے والے پُر  نزاکت کلچر کی حامل  بیوقوفانہ زبان سے تعبیر کرتے تھے اور انکے نزدیک ایسا کلچر دلی اور لکھنؤ کے گمشدہ اوراق میں گم ہوچکا تھا، مگر حسینہ معین نے انہیں دکھایا کہ یہ کلچر گم نہیں ہوا بلکہ کراچی میں  ابھی بھی زندہ ہے اور پوری آب و تاب کے ساتھ، نئی جہت کے ساتھ موجود  ہے، اس کلچر کو پیش کرتے ہوئے" احترام اور شائشتگی " کو نمایاں رکھا گیا تھا اور اس کی ڈرامائی تشکیل اتنی شاندار تھی کہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا تھا۔ میمن لوگوں نے آپ جناب کے ایسے کلچر کا جس میں بڑوں کو  ہی نہیں بچوں کو  بھی آپ سے مخاطب کیا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر اہلیہ، منگیتر اور منظور نظر سب ہی کو " آپ " سے مخاطب کرنے کا خوب لطف لیا۔

یہی وہ دن تھے جب کراچی کے میمن گھرانوں میں منگنی شدہ بچوں کو کبھی کبھار ملنے اور گھومنے پھرنے کی اجازت دے دی گئی تھی، اسطرح کی ملاقاتوں میں گفتگو اردو میں شروع ہوئی کہ حسینہ معین کے ڈراموں کا انداز اپنانا یہاں آسان بلکہ  زیادہ مناسب اور پسندیدہ تھا، اردو میں ہوئیں یہ ملاقاتیں شادی کے بعد گھر میں آپس میں اردو بولنے اور اس سے آگے ہونے والے بچوں سے بھی اردو میں گفتگو کا سبب بنیں اور اسکے بعد تو گویا یہ معمول ہوگیا کہ نو بیاہتا جوڑے اردو ہی میں بات کرتے تھے۔

منگنی کے بعد لڑکے  منگیتر کو تو آپ سے بلا لیتے تھے کہ کچھ تکلف اور کچھ اخلاق و نفاست کا تقاضہ بھی یہی تھا مگر شادی کے بعد اسی لڑکی کو  بیوی کے روپ میں " آپ" سے بلانا  ناممکن ہوجاتا تھا کہ ایسی صورت میں ماں اور بہنوں کا زیر لب مسکرانا گویا زن مریدی کا سرٹیفیکیٹ عطا کرنا تھا۔

چالیس برس گزرنے کے بعد صورتحال یہ ہے کہ دادا اور پوتے کی سطح تک اردو کی تمثیل قائم ہوچکی ہے ۔ اور میمن گھرانے بھی" آپ " کا لطف لینے لگے ہیں، اس لیے کہ اردو خراماں روی ہی سے سہی،  گفتگو میں اپنا تاثر قائم کرکے دم لیتی ہے اور وہ تاثر حفظ مراتب اور شائشتگی سے آگہی اور اسکے فطری اظہار کا نام ہے جو اردو کا طرّہ امتیاز ہے۔

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے