بقیہ : غزل کا فن

 

غزل میں ساحل، طوفان، بھنور، قفس، آشیاں، رند محتسب، صیاد کے تلازموں پر بہت سے اعتراضات کیے گئے ہیں۔ خواجہ منظور حسین نے اپنی کتاب اردو غزل کا خارجی روپ بہروپ میں واضح کیا ہے کہ ہماری سماجی اور سیاسی زندگی کے ہر موڑ اور ہر کروٹ کی تصویر ان تلازمات میں بھی مل جاتی ہے۔ فیض کی غزل میں زیادہ تر تلازمات، اشارات اور رموز پرانے ہیں مگر ان کے نئے مفاہیم ذہن فوراً قبول کر لیتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دراصل رموز و ایما اور علائم کبھی پرانے نہیں ہوتے، ہاں ان کے استعمال میں کاری گری یا صناعی کے بجائے جذبے یا کیفیت کی کار فرمائی ہونی چاہیے۔ حالی نے مقدمے میں یہ صحیح مشورہ دیا تھا کہ اساتذہ کے کلام پر نظر ہونی چاہیے اورفیض نے اپنی تنقیدوں میں جابجا اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انھوں نے سودا اور دوسرے اساتذہ سے فن کے کتنے اسرار و رموز سیکھے۔

 

غزل کا فن روانی اور شیرینی چاہتا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ شاعر ذوق کی طرح صرف سوئے ہوئے استعاروں یا محاوروں پر تکیہ کرے۔ نسخہ حمیدیہ کے غالب نے اس لیے ذوق کی پنچایتی شاعری سے رو گردانی کی، اور فکر کی جولانی کے لیے فارسی تراکیب کا سہارا لیا، تاکہ وہ اپنے آئینے کو مانجھنے اور معنی کی صورت دکھانے کے لیے دیوان غالب تک پہنچ سکے۔ اقبال کو بھی یہی کرنا پڑا لیکن اہم بات یہ ہے کہ غالب کی طرح اقبال نے بھی غزل کو گنجینۂ معنی کا طلسم بنایا۔ اقبال نے اگرچہ یہ کہا کہ غزل کی نہ کوئی زبان ہے نہ وہ زبان سے باخبر ہیں مگر انھوں نے غزل کے سارے آداب برتے۔ ہاں، ان کا یہ اضافہ قابل ذکر ہے، ان کے یہاں بال جبریل سے غیر مردف غزلوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ارمغان حجاز کے اردو حصے میں جو غزلیں ہیں، وہ سب کی سب غیر مردف ہیں۔

 

غزل اردو کے سبھی شعراء نے لکھی، مگر جنھوں نے صرف غزل لکھی انھیں یک فنا کہا گیا۔ اردو غزل میں اہم نام ولی، میر، مصحفی، آتش، غالب، مومن، داغ، اقبال، حسرت، فانی، یگانہ، اصغر، جگر، فراق، فیض، ناصر کاظمی کے ہیں۔ اس فہرست میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

 

 

غزل میں تصوف، فلسفہ، اخلاق، سیاست سبھی سے کام لیا گیا ہے جو ممتاز صوفی تھے، ان کا متصوفانہ کلام اکثر غزل کی لطافت نہیں رکھتا لیکن آتش اور غالب باقاعدہ صوفی نہ تھے مگر صوفیانہ کیفیات کا بیان ان کے یہاں شاعری اس لیے بن گیا کہ وہ بڑے شاعر تھے۔ ناسخ اخلاق نظم کرتے ہیں۔ استاد فن ہیں مگر غزل کے اچھے شاعر نہیں۔ حالی کی جدید غزلیں ان کی قدیم غزلوں سے کمزور ہیں۔ فیض کی غزل میں سیاسی مضامین کی فراوانی ہے مگر انھوں نے غزل کے آداب کو برتا ہے اس لیے ان کی اہمیت مسلم ہے۔ اقبال کی وہ غزلیں جو بال جبریل اور ضرب کلیم میں ملتی ہیں، اکثر غزل کی زبان اور غزل کے انداز بیان کے مطابق ہیں مگر کہیں کہیں فلسفہ زیادہ ہے اور شعریت کم۔ اقبال کو اپنا پیام کچھ زیادہ ہی عزیز تھا۔

 

غزل کہنا نہایت آسان ہے اور بہت مشکل بھی۔ میرے نزدیک مشاعروں کی مقررہ طرحوں سے غزل کو فائدہ بھی ہوا اور نقصان بھی۔ فائدہ تو یہ ہوا کہ قید کی حد میں آزادی کی حد بڑھانے کا رواج ہوا اور نقصان یہ کہ غزلیں صرف ذاتی واردات نہ رہیں، مجلس آداب واسالیب کی آئینہ دار بھی ہوگئیں، اس لیے جدید غزل میں طرحی غزلوں کی کمی ایک اچھا میلان ہے۔ ہاں اساتذہ کی زمینوں میں غزلیں برابر کہی جائیں گی۔

 

 

غزل بہرحال اپنی ہیئت کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ اس لیے آزاد غزل جیسے تجربوں کا کوئی جواز نہیں۔ اس کی زبان میں جو خاموش تبدیلی ہوئی ہے، وہ اس کا ثبوت ہے کہ وہ ہر دور کی حسیت اور مزاج کی عکاسی کر سکتی ہے مگر یہ ہے اشارے کاآرٹ۔ غزل وہ نگار خانہ ہے جو MINIATURE PAINTING سے آراستہ ہے۔ آج ہندوستان کی دوسری زبانوں میں غزل کی مقبولیت کی وجہ سے یہ سمجھنا چاہیے کہ غزل میں سب کچھ ہے۔ آ ج کا دور کسی منظم فلسفے، کسی مرتب فکر کے ریاض کے بجائے فوری کیفیات کے بیان کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ یہ شعور کی رو کا زیادہ خوگر ہو گیا ہے۔ یہ اپنی جگہ درست ہے مگر صراحت، وضاحت، ربط و تسلسل کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ اس لیے غزل اپنے طور پر زندگی کی واردات اور کیفیات پیش کرتی رہے گی۔ اس کی زبان میں خاموش تبدیلی ہوتی رہے گی مگر اس کی ایمائی صلاحیت اور دروں بینی کی خصوصیت باقی رہے گی۔ ہاں اس کا تغزل نظم پر بھی اثر کرتا رہے گا۔

 

 

سوچنے کی بات ہے کہ جدید فارسی میں غزل کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ وہاں ماضی سے رشتہ کٹ گیا، یہ رشتہ باقی رہنا چاہیے، مگر فن کے صرف اسی اسلوب اور اسی روپ کو خلاصۂ کائنات نہیں سمجھنا چاہیے۔ شیوۂ بتاں کی طرح فن کے بھی بہت سے دریچے ہیں۔ ہاں غزل کا دریچہ اب بھی حیات و کائنات کے ان گنت جلوے دکھا سکتا ہے۔

 

 

چند اور باتوں کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ غزل کی زبان کا غزل کے فن سے گہرا تعلق ہے۔ اس زبان میں روانی، شیرینی، بے ساختگی (جوخاصے ریاض کا ثمرہ ہوسکتی ہے) ضروری ہے۔ موضوع کی رعایت سے الفاظ کا انتخاب ہوتا ہے لیکن یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ غزل میں عجمی لے کی اہمیت نغمۂ ہندی سے زیادہ ہے یعنی اچھی غزل وہ ہے جس میں ہندی الفاظ زیادہ ہوں، فارسی تراکیب کی گنجائش بھی ہے، مگر اسی حد تک جس حد تک میر نے اپنے کلام میں یا غالب نے دیوان غالب (نہ کہ نسخۂ حمیدیہ والے اشعار میں) استعمال کی ہیں۔ اس معاملے میں اقبال کے اجتہاد کو تسلیم کرتے ہوئے بھی، انھیں سند نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسی طرح آرزو لکھنوی کی غزلیں، غزل کا اچھا نمونہ ہیں مگر فارسی اضافتوں کو ترک کرنا یا ہندی الفاظ سے پرہیز کرنا دونوں انتہا پسندی کی مثالیں ہیں۔ یہاں میر کے اس شعر پر غور کیجئے،

 

 

کچھ نہ دیکھا پھر بجز یک شعلۂ  پر پیچ و تاب

شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا

 

 

پہلے مصرعے کا تقریباً نصف حصہ بجز یک شعلہ پر پیچ و تاب، دوسرے مصرعے کی سادگی اور روانی کی وجہ سے کھٹکتا ہی نہیں۔ میر سوز نے فارسی تراکیب سے اجتناب کیا، میر نے انھیں سلیقے سے برتا، آرزو نے فارسی تراکیب سے احتراز کیا۔ یگانہ نے حسب موقع ان سے کام لیا۔ یہی بات دونوں کی شاعری کا درجہ متعین کرنے میں معاون ہے۔

 

 

اساتذہ کے یہاں دیوان کی حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب شاعرانہ لحاظ سے قابل قدر نہیں، اس لیے دور حاضر میں اس کی پابندی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ کلام کی تاریخی ترتیب سے بہرحال شاعر کے فن کا ارتقا تو ظاہر ہوتا ہے۔ وہ غزلیں جن کے آخر میں کوئی مصوتہ آتا ہے ایک گونج پیدا کرتی ہیں اور ذہین دیر تک ان اصوات کے مزے لیتا ہے۔ ضروری ہے کہ غزل گائی جا سکے۔ یہ ہرحال میں غنائی شاعری ہے، گو اس صنف میں ہر موضوع پر غزل کے آداب کے مطابق اظہار خیال ہو سکتا ہے، اس کا کنایاتی در و بست، اس کا ابہام، اس کی پہلو داری، اس کی خوبیاں ہیں، خامیاں نہیں۔ سیماب نے غلط نہیں کہا ہے،

 

کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے

جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے