ان کے در پہ آنکھ بچھائے بیٹھے ہیں
ان کے در پہ آنکھ بچھائے بیٹھے ہیں
بے مطلب کی آس لگائے بیٹھے ہیں
سارے عاشق سر کے بل اور دو زانو
گہری سوچ میں غوطہ کھائے بیٹھے ہیں
مت جا ان کے در دیوانے پنکھ پسار
وہ یادوں کی شمع جلائے بیٹھے ہیں
قربانی کا شوق اگر ہے بے شک جا
وہ خنجر پر دھار لگائے بیٹھے ہیں
ان کی غزلیں ان کی نظمیں چھوڑو یار
استادوں کے شعر چرائے بیٹھے ہیں
کھیل شاعری کا ان کے سنگ لا حاصل
وہ سر پر دیوان اٹھائے بیٹھے ہیں
نا ممکن ہے ہو پائے دیدار ان کا
وہ پلکوں کو آڑ لگائے بیٹھے ہیں
پیار کے رستے مت جانا او ملک عظیمؔ
رنج و غم سب گھات لگائے بیٹھے ہیں