رلایا جس نے مجھ کو اشک فرحت

رلایا جس نے مجھ کو اشک فرحت
وہ ذکر غم تھا یا ذکر محبت


نہ جانے عشق میں کچھ خاص کیا ہے
بھلی لگنے لگی ہے اپنی صورت


ہمیشہ ذہن نے روکا ہے مجھ کو
مگر دل کر ہی دیتا ہے بغاوت


میں مل کر بات کرنا چاہتا ہوں
نکالو تو کبھی تھوڑی سی فرصت


جدھر سے جی کرے آ جاؤ گھر میں
نہ ہے دیوار کوئی ناں کوئی چھت


عظیمؔ اک بار دیکھو پھر پلٹ کر
بلاتی ہے رقیبوں کی رفاقت