غم سے جب بھی آشنائی ہو گئی
غم سے جب بھی آشنائی ہو گئی
یہ جو دنیا تھی پرائی ہو گئی
اب دلوں کے درمیاں دیوار ہے
یہ خطا تو میرے بھائی ہو گئی
وقت کے حاکم کا ٹوٹے گا ستم
آج مجھ سے لب کشائی ہو گئی
سن کے بھی وہ سن نہ پایا مدعا
مفت میری جگ ہنسائی ہو گئی
آنکھ سے پوچھا پتہ تیرا کبھی
دل کی جانب رہنمائی ہو گئی
میں خدا کے گھر میں جا کے چھپ گیا
موت کی پھر بھی رسائی ہو گئی
آئینے کے سامنے آیا جو میں
ہر گنہ کی رونمائی ہو گئی
میں ہی بس تنہا کھڑا تھا اک طرف
دوسری جانب خدائی ہو گئی