تاروں والی رات کا عالم پینے اور پلانے سے

تاروں والی رات کا عالم پینے اور پلانے سے
ساقی نے مے کھینچ کے رکھ دی گویا دانے دانے سے


تار گریباں سینے والے چاک بہ دامن آئے ہیں
یعنی کچھ تقدیر نہ سلجھی الجھی تھی دیوانے سے


رات نہیں یہ زیست کا دن ہے ہوش میں آ برباد نہ کر
شمع فقط مہمان سحر ہے کون کہے پروانے سے


دیر و حرم سے اٹھنے والے آئے ہیں میخانے میں
اس پہ اگر تقدیر اٹھا دے جائیں کہاں میخانے سے


جوش جنوں سا رہبر ہو تو ہوش کی منزل دور نہیں
دیوانے نے راہ بنا دی بستی تک ویرانے سے


ساقی کے انداز کو دیکھو بے خود پینے والوں میں
ملتی ہے مے قسمت سے گو بٹتی ہے پیمانے سے


ظرف مری قسمت کا بھرا ہے آپ نگاہ ساقی نے
پیمانے کو خم سے ملی اور خم کو ملی پیمانے سے


عمر دو روزہ کیفیؔ کی یوں کٹ ہی گئی یوں کٹنی تھی
کام رہا پیمانے سے اور ساقی کے میخانے سے