امید کیا تھی اور وہ کیا دے گیا مجھے
امید کیا تھی اور وہ کیا دے گیا مجھے
کچھ اپنا کچھ مرا ہی دیا دے گیا مجھے
یہ وقت بھی عجیب ہے جو وقفے وقفے سے
انداز سوچنے کا نیا دے گیا مجھے
اس خوش مزاج دوست کے قربان جائیے
ہر زخم مسکرا کے نیا دے گیا مجھے
جو میرا ہم سفر تھا بڑا ہی عجیب تھا
اپنی جگہ سے اٹھ کے جگہ دے گیا مجھے
شاعر نہیں ہوں پھر بھی میں شاعر نواز ہوں
انداز شاعرانہ خدا دے گیا مجھے
جب تلخیاں حیات کی حد سے بڑھیں نوازؔ
تب جینا اک الگ سے مزہ دے گیا مجھے