الجھن میں اجالا ہے حیرت میں اندھیرا ہے
الجھن میں اجالا ہے حیرت میں اندھیرا ہے
دنیا ترے آنگن میں یہ کیسا سویرا ہے
صدیوں سے ہے روز و شب چہروں کا سفر جاری
لمحات کا آئینہ تیرا ہے نہ میرا ہے
فطرت نے عطا کی ہے یہ بے سر و سامانی
دل خانہ بدوشوں کا اجڑا ہوا ڈیرا ہے
سانسوں سے سبک ہو کر بڑھ جاتے ہیں ہم آگے
یہ پیکر خاکی تو اک رین بسیرا ہے
کرنیں غم دوراں کی تھک جاتی ہیں رستے میں
سایہ تری یادوں کا اس درجہ گھنیرا ہے
سرمایہ اصولوں کا رکھ گھر میں حیاتؔ اپنے
ہر گام یہاں رہزن ہر موڑ لٹیرا ہے