میخانۂ حیات کا انجام دے گیا

میخانۂ حیات کا انجام دے گیا
وہ مجھ کو ایک ٹوٹا ہوا جام دے گیا


وہ فکر و فن کو جذبۂ بے نام دے گیا
غزلوں کو میری پیکر ابہام دے گیا


آیا تھا ساتھ لے کے وہ سوغات ہجر کی
رخصت ہوا تو تحفۂ اوہام دے گیا


ظاہر ہوئے نہ چہرے سے دل کے تأثرات
خبروں پہ تبصرہ بھی بہت کام دے گیا


صہبا شباب قوس و قزح روشنی گلاب
ہر شخص تجھ کو ایک نیا نام دے گیا


دنیا کی نفسیات سما میں نہ آ سکی
ہر آدمی حیات کو الزام دے گیا