حالات کے دباؤ سے ہیجان میں رہے
حالات کے دباؤ سے ہیجان میں رہے
ہم ساری عمر جنگ کے میدان میں رہے
تنہائی ملتی اور کبھی خود کو بھی دیکھتے
مدت گزر گئی اسی ارمان میں رہے
جب تجربوں سے ٹوٹے توقع کے آئینے
جو مصلحت پسند تھے نقصان میں رہے
ان کے نقوش ابھرے ہیں قرطاس وقت پر
با اختیار ہو کے جو اوسان میں رہے
ہم اپنی سطح چھوڑ کے تم تک نہ آ سکے
لمحات انتقام تو امکان میں رہے
ٹوٹا نہیں ہے شہر نگاراں سے رابطہ
غالبؔ کی طرح ہم بھی بیابان میں رہے
لفظوں کے دائروں میں سمیٹے حیات کو
حیرت زدہ سے دہر کے ایوان میں رہے