لمس بیتے لمحوں کا گدگدا رہا ہوگا

لمس بیتے لمحوں کا گدگدا رہا ہوگا
غنچہ بے خیالی میں مسکرا دیا ہوگا


میرا تذکرہ جب بھی غیر سے سنا ہوگا
خود تمہارے چہرے کا رنگ اڑ گیا ہوگا


جس کو کہہ کے دیوانہ مارتے تھے پتھر سے
اس کے ہاتھ میں شاید آئینہ رہا ہوگا


ہے تمہارے چہرے پر کیوں حجاب کی شبنم
اپنے آپ کو ہم نے بے وفا کہا ہوگا


اس کے بعد تم خود کو پہروں ڈھونڈھتے ہو گے
جب کوئی پتہ میرا تم سے پوچھتا ہوگا


دیکھتے ہو حیرت سے کیوں حیات کا دامن
مصلحت کے کانٹوں سے یہ الجھ گیا ہوگا