افق کے پار اتر جاؤں میں ارادہ ہے
افق کے پار اتر جاؤں میں ارادہ ہے
مگر یہ عمر ہے کم اور سفر زیادہ ہے
طلب کے پھول بچھا دوں میں اس کے رستے میں
وہ ایک شخص جو صحرا میں پا پیادہ ہے
کسی کا نام نہ تحریر اور نہ نقش کوئی
ورق کتاب تمنا کا کتنا سادہ ہے
خود اپنے فیصلے کرنے ہیں زندگی میں مجھے
میں زندگی سے نہ پوچھوں گی کیا ارادہ ہے
نہیں ہے شاہدہؔ کچھ فکر اپنے غم کی مجھے
مجھے تو دوسرے لوگوں کا دکھ زیادہ ہے