رہا کرنا نہیں ان کو انہیں آباد رکھنا ہے

رہا کرنا نہیں ان کو انہیں آباد رکھنا ہے
سنہری خواہشوں کو قید میں دل شاد رکھنا ہے


وہ دن بھی یاد رکھنا ہے ابھی جو کل ہی بیتا ہے
جو اب ماضی کا حصہ ہے ہمیشہ یاد رکھنا ہے


خدا خود بستیوں کے فیصلے کرتا ہے حکمت سے
کسے آباد رکھنا ہے کسے برباد رکھنا ہے


بہت سے لوگ آئیں گے تمہاری زندگانی میں
مگر ہر دم کسی کے خال و خد کو یاد رکھنا ہے


کوئی موسم ہو کوئی امتحان رنج و راحت ہو
ہمیں تو شاہدہؔ ہر حال میں دل شاد رکھنا ہے