اداسیوں کا ہمیں آسرا شروع سے ہے

اداسیوں کا ہمیں آسرا شروع سے ہے
یہ عارضہ ہے تو پھر عارضہ شروع سے ہے


وہ پورا سچ ہے تو اس کی گواہی آدھی کیوں
اسے خدا سے یہی تو گلا شروع سے ہے


کسی کے رنگ کے مرہون ہیں نہ لہجے کے
کہ ہم میں جو بھی ہے اچھا برا شروع سے ہے


نہ تم نے پوچھا کبھی اور نہ ہم نے بتلایا
وگرنہ گھر کا یہی راستہ شروع سے ہے


تمہیں تو آج زمانہ نے رد کیا ہے مگر
ہمارے ساتھ یہی مسئلہ شروع سے ہے


خدا کا ذکر ہوا ہے تو یاد آیا ہے
ہمارے پاس تو اپنا خدا شروع سے ہے


ہماری آنکھ میں اک خواب ہے تمہارے لیے
مگر یہ شرط ہے وہ دیکھنا شروع سے ہے


ہم اپنے اپنے نصیبوں کی دوریوں پہ کھڑے
ہمارے بیچ کوئی فاصلہ شروع سے ہے