سانسوں کی روانی میں خلل آنے لگا ہے
سانسوں کی روانی میں خلل آنے لگا ہے
ٹھہرو کہ بچھڑ جانے کا پل آنے لگا ہے
کہتے ہو تو لہجے کی کمر سیدھی نہ کر لوں
مانا کہ مرے عجز پہ پھل آنے لگا ہے
یہ کیا کہ ہر اک وقت کی بیزار سماعت
ہر لفظ کی پیشانی پہ بل آنے لگا ہے
لاؤ مری آواز کی دستار اٹھا کر
کم ظرف کوئی حد سے نکل آنے لگا ہے
لو ختم ہوئی عمر مہ و سال کی گنتی
تمہید تھی جس کی وہی کل آنے لگا ہے