اداسیاں سحر و شام کی نہیں اچھی

اداسیاں سحر و شام کی نہیں اچھی
جگرؔ یہ خو دل ناکام کی نہیں اچھی


چھلک چلے نہ کہیں ظرف اے دل مخمور
بہت ہوس مے گلفام کی نہیں اچھی


انہیں کو کرتی ہے بے خانماں جو بے گھر ہیں
روش یہ گردش ایام کی نہیں اچھی


کسی کی شان تغافل سے ہے وقار ناز
امید نامہ و پیغام کی نہیں اچھی


سوائے کشمکش و اضطراب کیا حاصل
کرید قسمت و انجام کی نہیں اچھی


دل حزیں نہ کہیں عشق بد گماں ہو جائے
تلاش راحت و آرام کی نہیں اچھی


کہیں یہ پھولوں کے ایما سے ہوں نہ مرغ اسیر
شکایتیں قفس و دام کی نہیں اچھی


جگرؔ یہ یاد کہیں زہر ہو نہ جائے تمہیں
جو رٹ لگی ہے کسی نام کی نہیں اچھی