Jigar Barelvi

جگر بریلوی

  • 1890 - 1976

جگرمرادآبادی کے ہمعصر،مثنوی "پیام ساوتری" کے لیے مشہور،"حدیث خودی "کے نام سے سوانح حیات لکھی

Prominent contemporary of Jigar Moradabadi

جگر بریلوی کے تمام مواد

34 غزل (Ghazal)

    کوئی ادا تو محبت میں پائی جاتی ہے

    کوئی ادا تو محبت میں پائی جاتی ہے کہ جس پہ جان کی بازی لگائی جاتی ہے ستم میں ان کے کمی آج بھی نہیں کوئی مگر ادا میں حمیت سی پائی جاتی ہے جو سانس لینے سے بھی دل میں دکھتی رہتی ہے وہ چوٹ اور بھی ضد سے دکھائی جاتی ہے ستم کیا کہ کرم اس نے مجھ پہ کچھ بھی سہی زباں پہ بات عزیزوں کی لائی ...

    مزید پڑھیے

    کیوں آشنائے غم دل وحشت اثر نہیں

    کیوں آشنائے غم دل وحشت اثر نہیں مانوس التفات وہ ظالم اگر نہیں میں ہوں تلاش راہ محبت ہے دشت ہے سایہ نہیں نشان نہیں ہم سفر نہیں پھر راہ رو سے لیتا ہوں منزل کا کچھ سراغ سب راہبر ہیں میرے کوئی راہبر نہیں پھر عندلیب زار نے تنکے اٹھا لئے شاید چمن اجڑنے کی اس کو خبر نہیں میں اور جام ...

    مزید پڑھیے

    کسی نے چہرے پہ بکھرا لیا تھا زلفوں کو (ردیف .. ے)

    کسی نے چہرے پہ بکھرا لیا تھا زلفوں کو ذرا سی بات تھی بس لے اڑے ہیں دیوانے یہ پھول کھلتے ہیں گلزار میں کہ پردے سے بڑھا کے ہاتھ کوئی دے رہا ہے پیمانے ہوئی ہے باعث طغیان عشق گرمی حسن جلے نہ شمع تو کیوں گھر کے آئیں پروانے جہان جن سے تھا اک بزم نا و نوش تمام کہاں وہ بادہ گسار اب کہاں ...

    مزید پڑھیے

    خدا کی شان وہ خود ہو رہے ہیں دیوانے

    خدا کی شان وہ خود ہو رہے ہیں دیوانے جو راہ دشت سے آئے تھے ہم کو پلٹانے نکل چلے تو ہیں ترغیب دل پہ ہم گھر سے کہاں لگیں گے ٹھکانے یہ اب خدا جانے نہ دل رہا نہ رہی دل کی خاک بھی باقی حضور آئے ہیں اب انتظار فرمانے جو دل کی آگ سے واقف بنیں وہ کیا جانے لپٹ کے شمع سے کیوں جل رہے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    بے خبر حیات تھا غم نے مجھے جگا دیا

    بے خبر حیات تھا غم نے مجھے جگا دیا زیست کا راز کھول کر موت کا آسرا دیا زلف سیہ کی یاد میں خوف پس فنا کہاں طول شب فراق نے صبح کا غم مٹا دیا موت کہیں نہیں ہمیں اور کہاں نہیں ہے موت کس نے بنا کے سخت جاں سینے میں دل بنا دیا تلخ تو تھا غم حیات اتنا نہ تلخ تھا مگر پوچھ کے تم نے حال دل زہر ...

    مزید پڑھیے

تمام

1 نظم (Nazm)

    ہمالہ سے دو دو باتیں

    بھلا مجال کہاں مجھ سے بے زبانوں کی کہ منہ سے بات کہوں کچھ فلک نشانوں کی ترے وجود سے عالم یہ ہو گیا روشن کہ خاک ہند میں رفعت ہے آسمانوں کی وہ پھول ہیں ترے دامن میں سامنے جن کے بہار گرد ہے دنیا کے گلستانوں کی گپھاؤں سے تری نکلیں تو سارے عالم میں صدائیں گونج اٹھیں توحید کے ترانوں ...

    مزید پڑھیے