وہ مرد ہے جو کبھی شکوۂ جفا نہ کرے

وہ مرد ہے جو کبھی شکوۂ جفا نہ کرے
لبوں پہ دم ہو مگر نالہ و بکا نہ کرے


کسی کا مجھ پہ کچھ احسان ہو خدا نہ کرے
دوا تو کیا مرے حق میں کوئی دعا نہ کرے


کہاں سے جان پڑے زندگی کے مردوں میں
ادائے حسن قیامت اگر بپا نہ کرے


ادائے بے خبری ہے کہ اک طلسم جمال
نگاہ شوق سے واقف ہوں وہ خدا نہ کرے


غرض مجھے نہ در تاجدار تک لے جائے
سلام کرنے کی حاجت پڑے خدا نہ کرے


کوئی عذاب جہنم میں مبتلا ہو جائے
عروج پا کے زمیں پر گرے خدا نہ کرے


نہ دل میں درد کسی کے لئے نہ پاس وفا
ہم ایسے عارف خود کام ہوں خدا نہ کرے


بزرگ بن کے میں بیٹھوں یہ ہو نہیں سکتا
کوئی بڑا مجھے سمجھے جگرؔ خدا نہ کرے