تو نے دیکھا ہے جس نظر سے مجھے

اس نظر بس اسی نظر کی قسم
جو مجھے یہ بتا کے لوٹ گئی
کیوں رگ جاں میں پھول کھلتے ہیں
پھول کیوں پیرہن بدلتے ہیں
پیراہن کیوں حسین ہوتے ہیں
دل کو کب عقل آنے لگتی ہے
عقل کب سو قیاس بنتی ہے
کب قیاسوں میں گھر سنورتے ہیں
چاند کے ہر طواف کے معانی
خوشبوؤں کے حصار کا مطلب
کیوں ہے باد نسیم کی گردش
اب میں سمجھا بہار کا مطلب


کائنات اب سمجھ میں آئی ہے
اب خدائی کے راز سمجھے ہیں
زندگی اب نہیں معمہ صفت
اب مشیت کے تار سلجھے ہیں


میری ہر ایک حس کو تیری طلب
میری ہر سانس جستجو تیری
تو سراپا ہر ایک منظر میں
اور خوشبو بھی کو بہ کو تیری
تو نے دیکھا ہے جس نظر سے مجھے