دیوی اور دیوتا

درشن کرنے اک دیوی کے ایک پجاری آیا
سیس نوائے دیا جلایا اور چرنوں میں بیٹھ گیا
بپتا اپنی کہی نہ اس نے کوئی بھی فریاد نہ کی
تکتے تکتے پھر دیوی کو کتنے ہی یگ بیت گئے
درشن کرنے اس دیوی کے
جو بھی آتا سر کو جھکاتا پوجا کرتا
اور دنیا کی لوبھ میں لوبھی
دنیا مانگتا رہ جاتا
سادھو سنت فقیر سبھی یہ اس سے کہتے
اے دیوانے کچھ تو مانگو تم دیوی سے
وہ ہنستا اور کہتا ان سے
پاپ اور پن کے چکر میں مت ڈالو مجھ کو
جال ہیں یہ سب دنیا کے
دنیا بس اک چھایا ہے
اک استھان پہ رہنا اسے گوارا کب ہے
گیتا اپنے پاس ہی رکھ لو
امرت پیالہ تم ہی چکھو
میں دیوانہ ہوں دیوی کا دیوی میری دیوانی ہے