الوداعی بوسہ

سلگتے صحرا کے جب سفر پر
میں گھر سے نکلا
تو میری ماں نے
یوں میرے ماتھے پہ ہونٹ رکھے تھے
اس نے ایسے دیا تھا بوسہ
کہ میرے سارے بدن میں جس نے
مہک میں ڈوبا
دھنک سا رنگین پیار امرت سا بھر دیا تھا
مجھے جو سرشار کر گیا تھا
فضا میں خاموش سی دعا سے
عجیب سا رنگ بھر دیا تھا
عجب خوشی تھی عجیب دکھ تھا
کہ تپتے صحرا کی ریت جیسے تھے ہونٹ اس کے
اور اس کی آنکھیں سلگ رہی تھیں
لبوں پہ چپ اور کلام کرتی سی گفتگو تھی
مجھے تھا معلوم اور اسے بھی
کہ دور ہوتے ہی ٹوٹ جائیں گے بند سارے
کہ ضبط کے یہ کڑے سہارے
نہ روک پائیں گے خشک آنکھوں کی بارشوں کو
وہ بات بے بات رو پڑے گی
میری ماں