تو نہیں ہے تو ترے ہم نام سے رشتہ رکھا

تو نہیں ہے تو ترے ہم نام سے رشتہ رکھا
ہم نے یوں بھی دل ناکام کو زندہ رکھا


وہ مری جان کا دشمن کہ سر نہر وصال
سب کو سیراب کیا بس مجھے پیاسا رکھا


میرے مولا تری منطق بھی عجب منطق ہے
ہونٹ پہ پیاس رکھی آنکھ میں دریا رکھا


سب کے ہاتھوں کی لکیروں میں مقدر رکھ کے
رکھنے والے نے مرے ہاتھ پہ صحرا رکھا


سب کے سب لوٹ رہے تھے تری دولت رانی
میں نے تو صرف ترے شہر کا نقشہ رکھا


جس بلندی پہ رضاؔ میں نے سجائے تمغے
اس بلندی پہ ہی ٹوٹا ہوا کاسہ رکھا