تباہ کر کے ہر اک نقش جسم و جاں ہم نے
تباہ کر کے ہر اک نقش جسم و جاں ہم نے
بنا دیا ہے محبت کو جاوداں ہم نے
غلط روی پہ تری تبصرہ محال نہ تھا
ترا لحاظ کیا میر کارواں ہم نے
ہمارے دیدۂ بے آب کو نہ طعنے دو
لٹا دیا ہے ستاروں کا اک جہاں ہم نے
ہٹی ہٹی سے توجہ یہ اہل محفل کی
بدل دیا ہے کہیں رنگ داستاں ہم نے
ستم کئے ہیں بہت دل پہ یہ حقیقت ہے
عیاں نہ کر کے وفور غم نہاں ہم نے
نہ جانے راز محبت کا حشر کیا ہوگا
بنا لیے ہیں کئی اپنے رازداں ہم نے
نگاہ صرف تحیر حواس وارفتہ
لیا تھا جذب محبت کا امتحاں ہم نے
نہ جانے کون سی آفت نصیرؔ ہو نازل
اگر چمن میں کیا ذکر آشیاں ہم نے